"آم کے آم گھٹلیوں کے دام"
محاورے کی اصل حقیقت اور گٹھلی کے
خزانے کا سفر
محاورہ "آم کے آم گھٹلیوں کے
دام" پاکستانی ثقافت میں ایک عام کہاوت ہے جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ
فائدہ ہر حال میں حاصل کیا جا سکتا ہے چاہے وہ بنیادی مقصد سے ہو یا اس کے ضمنی
نتیجے سے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یہ محاورہ صرف زبانی کلام تک محدود نہیں
بلکہ اس کی ایک ایسی حقیقت بھی ہے جو ہماری معیشت صنعت اور ماحول کو بدل سکتی ہے؟
آم کی گٹھلی جسے ہم اکثر کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیتے ہیں۔ درحقیقت ایک ایسا خزانہ
ہے جو اربوں روپے کی معیشت کھڑی کر سکتا ہے۔
آئیے اس مضمون میں اس خزانے کی حقیقت اس کے
امکانات اور اسے عملی جامہ پہنانے کے
طریقوں پر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
آم پاکستان
کا قومی فخر
پاکستان دنیا بھر میں اپنے لذیذ آموں
کے لیے مشہور ہے۔ صوبہ سندھ کے "سندھڑی" سے لے کر پنجاب کے
"چونسہ" اور "انور رٹول" تک آم پاکستانیوں کے دل و دماغ پر
راج کرتا ہے۔ ہر سال گرمیوں میں بازار آموں کی خوشبو سے معطر ہو جاتے ہیں۔ اور
گھروں میں آموں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ پاکستان سالانہ تقریباً 18 سے 20 لاکھ ٹن آم پیدا کرتا ہے۔ جن میں سے 1.5
سے 2 لاکھ ٹن برآمد ہوتے ہیں۔ جبکہ باقی مقامی طور
پر استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن اس پھل کا ایک اہم حصہ یعنی اس کی گٹھلی ہماری لاپرواہی
کی نذر ہو جاتا ہے۔ اگر ہم اس گٹھلی کو "کچرا" سمجھنے کے بجائے اس کی
قدر جانیں تو یہ ہماری معیشت کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔
گٹھلی کچرے
سے خزانے تک
ایک اوسط آم کا وزن تقریباً 200 سے 300 گرام
ہوتا ہے۔جس میں سے 20
سے 25 فیصد حصہ گٹھلی کا ہوتا ہے۔ اگر ہم سالانہ
18 لاکھ ٹن آموں کا تخمینہ لگائیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 3.6 سے 4.5 لاکھ ٹن گٹھلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں سے زیادہ تر گٹھلیاں کوڑے
دان میں پھینکی جاتی ہیں یا بہت کم پیمانے پر جانوروں کے چارے کے طور پر یا کچھ
حکماء کے استعمال میں آتی ہیں۔ لیکن کیا
آپ جانتے ہیں کہ اس گٹھلی کے اندر ایک ایسی گری چھپی ہوئی ہے جو عالمی منڈی میں
اربوں روپے کی قدر رکھتی ہے؟
گٹھلی کا
خفیہ خزانہ مینگو بٹر( آم کا مکھن )
آم کی گٹھلی کے اندر موجود گری میں 10 سے 12 فیصد
ایک قیمتی مادہ ہوتا ہے جسے مینگو بٹر یا مینگو سیڈ بٹر کہا جاتا
ہے۔ یہ مکھن اپنی خصوصیات کے لحاظ سے کوکا بٹر سے بہت ملتا جلتا ہے۔ جو
مہنگی چاکلیٹس کاسمیٹکس اور دواسازی کی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بین الاقوامی
منڈی میں کوکا بٹر کی قیمت $20
سے $30 فی کلو تقریباً 5500
سے 8000 روپے فی کلو تک
ہوتی ہے اور ماہرین کے مطابق آم کی گٹھلی سے حاصل ہونے والا مکھن نہ صرف کوکا بٹر
کا متبادل ہے۔ بلکہ اس کی خوشبو اور معیار اس سے بھی بہتر ہوتا ہے۔
مینگو سیڈ
آئل ۔ خوبصورتی کا راز
آم کی کٹھلی سے تیل حاصل ہوتا ہے اسے مینگو سیڈ آئل کہتے
ہیں۔ یہ تیل جلد اور بالوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک معجزاتی جزو ہے۔ اس کے اینٹی
آکسیڈنٹس وٹامنز
خاص طور پر وٹامن A اور
E اور موئسچرائزنگ
خصوصیات اسے کاسمیٹک مصنوعات جیسے کریموں لوشن اور ہیئر آئل میں مقبول بناتی ہیں۔
عالمی منڈی میں اس کی قیمت $15
سے $20 فی لیٹر تقریباً 4000
سے 5500 روپے فی لیٹر تک
ہوتی ہے۔
گلوٹن فری
آٹا ۔ غذائیت سے بھرپور
جب گٹھلی سے مکھن اور تیل نکال لیا
جاتا ہے۔ تو باقی بچنے والا مادہ ایک گلوٹن فری آٹا ہوتا ہے۔ جو غذائیت سے
بھرپور ہوتا ہے۔ اس میں پروٹین فائبر اور معدنیات کی مقدار وافر ہوتی ہے۔ جو اسے
صحت مند غذا کا ایک اہم جزو بناتی ہے۔ اس آٹے کی مانگ خاص طور پر ان ممالک میں بڑھ
رہی ہے جہاں گلوٹن فری ڈائیٹ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کی قیمت بھی 1000 سے 2000 روپے فی کلو تک ہو سکتی ہے۔
معاشی
امکانات۔ اربوں روپے کی معیشت
اب ذرا تصور کریں کہ اگر ہم اپنی
سالانہ 4 لاکھ ٹن گٹھلیوں کو منظم انداز میں پروسیس کریں تو
کیا ہوگا؟ آئیے اس کا ایک تخمینہ لگاتے ہیں:
مینگو بٹر
اگر ہم 4 لاکھ ٹن گٹھلیوں سے 10 فیصد
مکھن حاصل کریں تو یہ 40,000
ٹن مکھن بنتا ہے۔ عالمی منڈی میں اس کی قیمت 5500 روپے فی کلو مان لیں
تو اس کی کل مالیت 220
ارب روپے ہوگی۔
مینگو سیڈ آئل: اگر
ہر ٹن گٹھلی سے 5 فیصد تیل حاصل ہو تو کل 20,000
ٹن تیل بنتا ہے جس کی قیمت 5000 روپے فی کلو مان لیں تو اس کی مالیت 10 ارب روپے
ہوگی۔
گلوٹن فری آٹا: باقی
بچنے والا مادہ تقریباً 3
لاکھ ٹن ہوگا۔ اگر اس کی قیمت 1000 روپے فی کلو مان لیں تو اس کی
مالیت 30 ارب روپے ہوگی۔
یعنی صرف گٹھلیوں سے ہم 260 ارب روپے کی معیشت کھڑی کر سکتے ہیں۔ یہ رقم لاکھوں خاندانوں کے لیے روزگار کے
مواقع پیدا کر سکتی ہے۔ اگر ہم اسے 50,000
خاندانوں میں تقسیم کریں تو ہر خاندان کو ماہانہ 50,000
روپے سے زیادہ کی آمدنی ہو سکتی ہے۔
بھارت اور آم کی کٹھلی
ہمارا پڑوسی ملک بھارت پہلے ہی اس
خزانے سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ وہ سالانہ 30,000
ٹن مینگو بٹر نکالنے کا ہدف رکھتا ہے اور اسے
عالمی منڈیوں خاص طور پر یورپ اور شمالی امریکہ میں برآمد کرتا ہے۔ بھارت نے
گٹھلیوں کے حوالے سے ایک منظم نظام بنایا ہے۔ جس میں گاؤں کی سطح پر گٹھلیاں جمع
کرنے سے لے کر پروسیسنگ یونٹس تک کا پورا نیٹ ورک شامل ہے۔ اس کے برعکس پاکستان
میں یہ شعبہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اس کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے
ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
عملی
اقدامات۔ گھر سے صنعت تک
گٹھلیوں سے خزانہ نکالنے کے لیے ہمیں
ایک منظم حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اسے چھوٹے اور بڑے پیمانے پر شروع کیا جا سکتا ہے۔
چھوٹے
پیمانے کا یونٹ
ایک چھوٹے پیمانے کا پروسیسنگ یونٹ جس
میں ایک سولر ڈی ہائیڈریٹر (گٹھلیوں کو خشک کرنے کے لیے) اور ایک ہائیڈرولک
آئل پریس شامل ہو صرف 5
سے 6 لاکھ روپے کی لاگت سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ
یونٹ روزانہ 30 سے 60 کلو مکھن اور 10
سے 20 کلو تیل نکال سکتا ہے۔ ایک ماہ کی پیداوار اس
یونٹ کی لاگت سے زیادہ ہوگی یعنی سرمایہ کاری چند ماہ میں واپس ہو سکتی ہے۔ یہ
یونٹ گاؤں اور قصبوں کی سطح پر لگائے جا سکتے ہیں۔ جس سے مقامی لوگوں کو روزگار
ملے گا۔
بڑے پیمانے
کی صنعت
حکومتی سطح پر اگر بڑے پیمانے کی
پروسیسنگ فیکٹریاں قائم کی جائیں۔ تو یہ نہ صرف ملکی معیشت کو مضبوط کریں گی بلکہ
برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے درکار اقدامات یہ ہیں۔
گٹھلیوں کا جمع کرنے کا نظام: مقامی
سطح پر گٹھلیاں جمع کرنے کے مراکز قائم کیے جائیں۔ جہاں لوگ اپنی گھریلو گٹھلیاں
فروخت کر سکیں۔
تحقیق اور ترقی:
جامعات اور تحقیقی اداروں کو آم کی
گٹھلی کے استعمال پر تحقیق کے لیے فنڈز دیے جائیں تاکہ نئی مصنوعات تیار کی جا
سکیں۔
مارکیٹنگ اور برآمدات:
عالمی منڈیوں میں پاکستانی مینگو بٹر
اور آئل کی مارکیٹنگ کی جائے۔
ماحولیاتی
فوائد
گٹھلیوں کے استعمال سے نہ صرف معاشی
فوائد حاصل ہوں گے بلکہ ماحولیاتی فوائد بھی ہوں گے۔ فی الحال گٹھلیاں کوڑے کے
ڈھیر میں جا کر ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔ انہیں پروسیس کرنے سے کوڑے کی
مقدار کم ہوگی اور ماحول دوست مصنوعات جیسے کہ بائیو ڈیگریڈ ایبل کاسمیٹکس اور
غذائی اشیا تیار ہوں گی۔
چیلنجز اور
حل
اس سارے عمل میں کچھ چیلنجز بھی ہیں
جیسے کہ۔
شعور کی کمی:
لوگوں کو گٹھلیوں کی اہمیت کے بارے
میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے میڈیا اور تعلیمی اداروں کی مدد لی جا سکتی
ہے۔
سرمایہ کاری:
چھوٹے پیمانے کے یونٹس کے لیے سرمایہ
کاری کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت یا نجی بینک اس کے لیے کم شرح سود پر
قرضے دے سکتے ہیں۔
کوالٹی کنٹرول:
عالمی منڈیوں میں مقابلے کے لیے
پروڈکٹس کا معیار اعلیٰ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور تربیت ضروری ہے۔
نتیجہ: ایک
سنہری موقع
"آم کے آم گھٹلیوں کے دام" محض ایک کہاوت نہیں بلکہ ایک
ایسی حقیقت ہے جو پاکستان کی معاشی ترقی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ آم کی گٹھلی جو
ہمارے گھروں سے کوڑے دان تک کا سفر طے کرتی ہے دراصل ایک خزانہ ہے جو ہماری غفلت
کی وجہ سے ضائع ہو رہا ہے۔ اگر ہم اس موقع سے فائدہ اٹھائیں تو نہ صرف اربوں روپے
کی معیشت کھڑی ہو سکتی ہے۔ بلکہ لاکھوں خاندانوں کی زندگیاں بھی بدل سکتی ہیں۔
ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں تحقیق کریںاور اس خزانے کو بروئے
کار لائیں۔ قدرت نے ہمیں یہ موقع دیا ہے—اب اسے ہاتھ سے جانے دینا ہماری نادانی
ہوگی۔
تو آئیے!
اس موسم میں آم کھائیں۔ لیکن گٹھلیوں کو سنبھال
کر رکھیں—کیونکہ یہ کوڑا نہیں خزانہ ہے!
غلام یٰسین آرائیں کہروڑ پکا


0 Comments
Thanks for Visit